Loader Loading...
EAD Logo Taking too long?
Reload Reload document
| Open Open in new tab

Download

 

١۔ولادت:

 

آپ کی ولادت 14محرم الحرام 1366ھ مطابق1947ء کو بستی درخواست میں ہوئی۔

 

٢۔نام:

 

آپ کے نانا جان شیخ الاسلام حضرت درخواستی  نے اپنے پیارے نواسے کا نام شفیق الرحمن رکھا۔ اپنا لعاب مبارک نواسے کے منہ میں ڈالا اور علم و عمل خیر و برکت کی ڈھیروں دعائیں فرمائیں اور کہا کہ مجھے اپنے نواسے سے علم کی خوشبو آرہی ہے اسی لعاب مبارک اور دعائوں کی تاثیر تھی کہ حضرت شیخ الحدیث اپنے نانا جان حافظ الحدیث حضرت درخواستی کے علم و عرفان کے وارث اور امین بنے۔

 

٣۔والد ماجد:

 

آپ کے والد ماجد ، درویش عالم دین، مرد باخدا، سینکڑوں حفاظ و علماء کے استاذ ، علاقہ بھر کے محبوب و منظورِ نظر، ولی کامل، حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب درخواستی رحمة اللہ علیہ تھے۔

 

٤۔والدہ ماجدہ:

 

 آپ کی والدہ ماجدہ رابعہ دوراں شیخ الاسلام حضرت درخواستی کی بڑی صاحبزادی تھیں جو کہ بڑی ہی عبادت گزار اور تقویٰ و پرہیز گاری والی خاتون تھیںاور جب حافظ الحدیث حضرت درخواستی ر حمہ اللہ خطبہ جمعة المبارک ارشاد فرمانے کیلئے مسجد تشریف لے جاتے تو والدہ ماجدہ اپنے کمسن بیٹے شفیق الرحمن کونانا جان کیساتھ روانہ کرتیں اور دعا کرتیں کہ اے اللہ میرے ابا کو تُو نے حافظ الحدیث بنایا ہے تو میرے بیٹے کو شیخ الحدیث بنا دے۔

 

٥۔قرآن مجید:

 

 آپ نے قرآن مجید کی تکمیل کی سعادت اپنے والد محترم حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب درخواستی   اور میاں جی حافظ محمد یوسف درخواستی   سے حاصل کی ۔

 

٦۔ابتدائی تعلیم:

 

 ابتدائی تعلیم آپ نے خانپور ، ظاہر پیر، طاہر والی میں اپنے وقت کے جید اور ممتاز علماء کرام سے حاصل کی۔جن میں حضرت مولانا عبدالواسع   ، حضرت مولانا منظور الٰہی اور حضرت مولانا منظور احمد نعمانی   ، حضرت مولانا مفتی غلام حیدر صاحب قابل ذکر ہیں۔

 

٧۔دورۂ حدیث:

 

آپ نے 1965ء میں دورۂ حدیث شریف کے اسباق شیخ الاسلام حافظ الحدیث والقرآن حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی   ، شیخ المحدثین حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کے مایہ ناز شاگرد حضرت مولانا واحد بخش ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی   کے مشہور شاگرد حضرت مولانا محمدابراہیم تونسوی سے پڑھے اور ان کے انداز درسِ حدیث سے فیض یاب ہوئے۔

 

٨۔دورۂ تفسیر:

 

آپ نے شیخ الاسلام حافظ الحدیث والقرآن حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی   سے قرآن مجید کی تفسیر پڑھی اور ان کے انداز درسِ تفسیر سے فیض یاب ہوئے۔

 

٩۔تکمیل و میراث:

 

 آپ نے تکمیل اور میراث کے اسباق مردِ درویش حضرت مولانا حبیب اللہ گمانوی شہنشاہِ تدریس حضرت مولانا منظور الحق صاحب کبیروالا اور حضرت مولانا منظور احمد نعمانی طاہر والی سے پڑھے۔

 

١٠۔تدریس:

 

 اولاً :آپ نے جامعہ مخزن العلوم خانپور میں اسلامی علوم و فنون کے اسباق پڑھائے پھر بہت جلد حدیث و تفسیر و فقہ کے اسباق بھی آپ کے حصہ میں آگئے۔ مجموعی طور پر بیس سال تک آپ نے مخزن العلوم میں تدریسی فرائض سرانجام دیئے اور تقریباً پندرہ سال تک آپ بحیثیت ، شیخ الحدیث ، شیخ التفسیر ، ناظم تعلیمات، رئیس  دارالافتائ، جامعہ مخزن العلوم میں فرائض سرانجام دیتے رہے اور پندرہ سال تک آپ شیخ الاسلام حضرت درخواستی رحمہ اللہ کیساتھ ایک ہی مسند پر حدیث و تفسیر کے اسباق پڑھاتے رہے۔

 

ثانیاً: آپ دو سال تک دارالعلوم اسلامی مشن بہاولپور میں بحیثیت ، شیخ الحدیث، شیخ التفسیر، رئیس دارالافتائ، مہتمم ، فرائض سرانجام دیتے رہے اور تشنگان علوم دینیہ کو سیراب کرتے رہے۔

 

ثالثاً: آپ اٹھارہ سال تک جامعہ عبداللہ بن مسعود خانپور میں بحیثیت شیخ الحدیث… شیخ التفسیر…رئیس دارالافتاء …مہتمم … فرائض سرانجام دیتے رہے اور تشنگانِ علوم قرآن و حدیث کی پیاس بجھاتے رہے۔

 

١١۔انداز تدریس:

 

 آپ ایک عظیم الشان مدرس و محقق تھے۔ حاوی الاصول والفروع، جامع المعقول والمنقول ، شیخ الحدیث والتفسیر کے عظیم مناصب اور القاب کے صحیح مصداق و حقدار تھے۔  آپ کی زبان مبارک میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیئے گئے تھے۔ مشکل کتابوں کے ایسے کٹھن اور پیچیدہ مقام جن کے سمجھانے سے بڑے بڑے مدرس عاجز و قاصر رہ جاتے تھے۔ آپ ایسے مسائل کو تمہیدات، تقطیعات، تنقیحات، تفصیلات، سے اس قدر آسان کردیتے کہ معمولی استعداد والاطالب علم بھی آسانی کے ساتھ سمجھ لیتا تھا۔ اسی وجہ سے آپ طلباء کے دلوں کی دھڑکن، آئیڈیل اور محبوب استاذ بن گئے تھے۔ آپ کی گفتگوی بڑی مربوط، مضبوط اور جاندار ہوتی تھی۔ منقولات کیساتھ معقولات میں بھی آپ کو نمایاں اور امتیازی مقام حاصل تھا۔ یوں لگتا تھا کہ مکمل درسِ نظامی آپ کے ذہن اور دل و دماغ میں محفوظ اور منقوش ہے۔اسی وجہ سے آپ اپنے دور کے شہنشاہِ تدریس اور بے مثال مدرس شمار ہوتے تھے۔ درسگاہ میں دوران سبق کسی کی طرف توجہ نہ فرماتے تھے چاہے کوئی بڑا سے بڑا آدمی کیوں نہ آجائے۔ دوران سبق کسی کی غیبت، عیب جوئی، الزام تراشی، اور کسی کی ذات کے بارے میں منفی تبصرہ نہیں فرماتے تھے۔ درسگاہ میں سیاسی گفتگو سے بھی پرہیز فرماتے تھے۔

 

درسگاہ میں وعظ ونصیحت اور اکابر کے اقوال و احوال کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔

 

١٢۔درسِ حدیث :

 

 آپ نے چالیس سال تک حدیث کے اسباق پڑھائے اور دنیا بھر سے طالبانِ حدیث آپکی طرف کھچے چلے آئے اور اپنی علمی پیاس کو بُجھاتے رہے اورآج ہزاروں کی تعداد میں اندرون و بیرون ملک آپ کے حدیث کے شاگرد موجود ہیں۔

 

١٣۔انداز درسِ حدیث :

 

 آپ سچے عاشق رسول تھے اور حدیث یار آپ کو تمام دنیا سے محبوب اور پیاری تھی اسی وجہ سے جب آپ درسِ حدیث میں مصروف ہوتے تو دنیا ومافیھا سے بے خبر ہوجاتے اور ایک عجیب جذب اور وجد کی کیفیت آپ پر طاری ہوجاتی اور سننے اور دیکھنے والے بھی آپ کے ساتھ عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ڈوب جاتے تھے۔ 

 

١٤۔درسِ حدیث کی خصوصیات:

 

 حدیث کا معنیٰ و مطلب و تشریح…مشکل الفاظ کی توضیح …حدیث باب اور ترجمة الباب میں مناسبت …ائمہ اربعہ کے مذاہب… ائمہ اربعہ کے دلائل … اختلافی مسائل پر سیر حاصل گفتگو … ترجیح راجح… اسناد…جرح و تعدیل… تطبیق و ترجیح …فوائد و نکات جیسے مباحث سے درس حدیث مزین و مرصع ہوتاتھا ۔

 

١٥۔درسِ تفسیر :

 

آپ نے  چالیس سال تک تفسیر کے اسباق بھی پڑھائے اور دنیا بھر سے علوم قرآن کے دیوانے آپ کی محفل و مجلس کا حصہ بنے اور اپنے آپ کو قرآنی علوم سے،  معمور، بھرپور،  نور علیٰ نور، کیا۔

 

اور آج ہزاروں کی تعداد میں اندرون و بیرون ملک آپ کے تفسیر کے شاگرد موجود ہیں۔

 

١٦۔انداز درسِ تفسیر :

 

 اللہ رب العزت نے آپ کو بے مثال قوت حافظہ سے نوازا تھا، آپ بغیر حواشی واشارات کے سادہ قرآن مجید اپنے سامنے رکھتے تھے اور مسلسل پانچ سے سات گھنٹے تک درسِ تفسیر جاری رہتاتھا اور انتہائی پُر وقار ، سادہ، سنجیدہ اور خوبصورت انداز میں قرآنی سورتوں اور رکوعات اور آیات میں یوں ربط واضح کرتے چلے جاتے جیسے ایک لڑی میں موتی پروئے جاتے ہیں اور قرآن مجید کے الفاظ کے معانی و مطالب اور مسائل  و احکام و استنباط پر مشتمل فوائد و فرائد کاایک سمندر ہوتا تھا جو بہتا ہی چلا جاتا تھا اور رُکنے کا نام ہی نہ لیتا تھا اور آپ کی خصوصی شان تھی کہ آپ پانچ سے سات گھنٹے کے درس میں نشست بھی تبدیل نہیں کرتے تھے۔ ابتداء سبق سے لیکر اختتام سبق تک منظر یہی رہتا کہ ہاتھ قرآن و حدیث پر… نظر قرآن و حدیث پر… توجہ قرآن و حدیث پر… اور جس ہیئت و نشست میں بیٹھتے آخر تک اسی کیفیت کو برقرار رکھتے ۔ قرآن و حدیث کی محبت اتنی غالب رہتی کہ نشست تبدیل کرنے کا خیال بھی نہ آتا۔

 

١٧۔درسِ تفسیر کی خصوصیات:

 

 آپ کے درسِ تفسیر کی چندخصوصیات ملاحظہ فرمائیں۔

 

اقسام سُوَر و اسمائے سُوَر۔ موضوعات و خلاصہ ہائے سُوَر۔ شان نزول و فضائل سُوَر۔ ربط  بین السور(پانچ طریق) ربط بین الاجزاء (پانچ طریق) ربط بین المنازل (پانچ طریق) ربط بین الرکوعات، ربط بین الآیات، ربط  بین الجُمل،ربط  بین الصیغ والالفاظ۔ شان نزول و فضائل آیات۔ تفسیر القرآن بالقرآن۔ تفسیر القرآن بالحدیث۔ تفسیر القرآن باقوال الصحابہ  والتابعین۔ الفاظِ قرآنیہ کی صرفی، نحوی،معنوی، ادبی، تحقیقات ،مضامین و مسائل و احکامِ قرآنیہ کی تشریح۔ معارف و اسرار و نکاتِ قرآنیہ کی توضیح۔ مسلکِ حقہ کی تائید اور فِرق باطلہ کی تردید۔

 

١٨۔خطابت:

 

 آپ کی خطابت قرآن و حدیث پر مشتمل ہوتی تھی وقت اور موقع محل کی مناسبت سے جو موضوع بیان فرماتے تھے اس پر مسلسل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیش کرتے چلے جاتے تھے جس سے ایک سماں بندھ جاتا تھا اور سننے والے قرآن و حدیث کے اعجاز میں کھو جاتے تھے۔ توحید خداوندی۔ عظمت خداوندی۔ صورت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۔ عظمت صحابہ۔ حب اہل بیت۔ شان اکابر علماء دیوبند۔ توجہ الی اللہ۔ رجوع الی اللہ۔آپ کے خصوصی مضامین ہوا کرتے تھے۔آپ  نے جوانی میں ہی اپنی خطابت کا لوہا منوالیا تھا آپ کی خطابت کا شہرہ پورے ملک میں تھا۔ لوگ دوردراز سے آپ کی خطابت سننے کیلئے آتے تھے آپ جامعہ مخزن العلوم کی شاہی جامع مسجد اور جامعہ عبداللہ بن مسعود کی جامع مسجد میں خطیب اعظم کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ابتداء میں آپ سالہا سال تک جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان، ا ور قلات کوئٹہ کی مرکزی عید گاہ میں عیدین کے موقع پر عظیم الشان اجتماعات سے خطاب کرتے رہے اور عید کی نماز پڑھاتے رہے۔ آپ کی خطابت پر حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی ا ور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود اور تمام اکابر علماء کرام کو اعتماد تھا۔ ملک کے تمام بڑے عظیم الشان اجتماعات اور خصوصاً مدارس عربیہ کے سالانہ اجتماعات اور ختم بخاری شریف ، ختم دورۂ تفسیر القرآن کی تقریبات میں آپ کی شرکت کو ضروری اور لازمی تصور کیا جاتا تھا اور اکثر پروگرام آپکے آخری بیان اور دعا پر اختتام پذیر ہوتے تھے۔

 

١٩۔انداز خطابت :

 

آپ کی خطابت کے انداز سے شیخ الاسلام حضرت درخواستی کی یاد تازہ ہوجاتی تھی اور یوں نظر آتا تھا کہ شیخ درخواستی کی روح بول رہی ہے شیخ درخواستی کے علوم و عرفان، تلاوت حدیث و قرآن ا ور تسلسل بیان کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی۔

 

٢٠۔سیاست و قیادت :

 

آپ اپنے مرشد کامل شیخ الاسلام حضرت درخواستی کے ساتھ جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے بھرپور سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے اور مجاہدانہ کردار ادا کرتے رہے۔ تحریک ختم نبوت ١٩٧٤ء اور تحریک نظام مصطفی ١٩٧٧ء میں آپ نے مجاہدانہ و قائدانہ کردار ادا کیا! تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حضرت میاں سراج احمد صاحب دین پوری اور حضرت مولانا غلام ربانی مرحوم کے ساتھ ڈیڑھ ماہ گرفتار بھی رہے اور آخر وقت تک شیخ الاسلام حضرت درخواستی کے مسلک و مشرب اور سیاسی نظریات  پر کاربند رہتے ہوئے عملی جدوجہد میں مصروف رہے۔

 

          شیخ الاسلام حضرت درخواستی کی وفات کے بعد ١٩٩٥ھ سے اپنی وفات تک بارہ سال بالاتفاق جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سرپرست اعلیٰ رہے۔

 

          آپ اپنی ذات میں ایک جماعت، ایک تحریک، ایک عہد اور ایک انقلاب تھے۔

 

٢١۔اندازسیاست و قیادت :

 

 آپ کی سیاست مذہب کے تابع  تھی اور قرآن و سنت کے مطابق تھی۔ آپ جماعت کے ساتھیوں کو رفیق کارکا درجہ دیتے تھے اور عزت واحترام کا معاملہ فرماتے تھے۔ کسی کو ادنیٰ و حقیر نہ سمجھتے تھے اسی وجہ سے تمام ساتھی اور کارکن بھی آپ پر جان نچھاور کرتے تھے۔

 

٢٢۔ امیر العلماء:

 

امیر العلماء، خطیب العصر حضرت مولانا عبدالشکور صاحب دینپوری کی وفات کے بعد  1987ء کو علماء، خطباء، مبلغین، واعظین کی عظیم الشان مشہور و معروف جماعت، مجلس علماء اہل سنت والجماعت کا آپ کومرکزی امیر منتخب کیا گیا اور امیر العلماء کے لقب سے نوازا گیا آپ اپنی وفات تک بیس سال جماعت کے امیر رہے اور اپنی خدمات و فرائض سرانجام دیتے رہے اس تمام تر سیاسی و مذہبی جدوجہد میں آپ کے ہزاروں شاگرد، مریدین، متعلقین، آپ کے ساتھ رہے اور آج بھی اپنے محسن و مربی شیخ درخواستی کے مشن کی شمع کو روشن کئے ہوئے ہیں۔

 

٢٣۔صورت و سیرت:

 

 باحیاء، بارعب، پُر ہیبت، خوبصورت، مسکراتا ہوا چہرہ، معتدل درمیانہ قد و قامت، لباس میں کُرتہ تہبند اور اوپر چادر، سرپر عمامہ ، مضبوط گٹھا ہو جسم، سینے کو بھر دینی والی لمبی اور گھنی داڑھی، ہاتھو ں میں عصائ، آنکھوں میں سرمہ، وجود میں خوشبو، زبان پر حدیث یار، چال باوقار اور تیز رفتار ، طبیعت میں اخلاق و پیار تواضع و انکسار، گفتگو میں جلال وجمال پُر لطف و پُر مزاح اور پُر بہار، دنیا آج بھی شفیق کی شفقتوں میں کھوئی ہوئی ہے۔

 

٢٤۔اجازت و خلافت :

 

 آپ کے مرشد کامل شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی نے دورۂ حدیث سے فراغت کے موقع پر اپنی دستار مبارک اتار کر آپ کے سر پر رکھی اور آپ کے علوم شریعت اور علوم معرفت میں کامل اور مکمل ہونے کا واضح اظہار کردیا اور طالبان علوم ظاہری (یعنی حدیث و تفسیر فقہ و نحو کے طلبگار) اور طالبان علوم باطنی (یعنی تصوف و سلوک طریقت و حقیقت کے طلبگار) کی راہنمائی و خبر گیری کا فریضہ سونپ دیا! آپ کا ابتدائی سلسلہ بیعت جنید وقت حضرت دین پوری  اور حافظ الحدیث حضرت درخواستی  سے تھا۔ اور آپ کو باقاعدہ خلافت مرشد العلماء حضرت مولانا عبدالحی صاحب بہلوی  سے حاصل ہوئی۔ مرشد کامل نے آپ کو سلاسل اربعہ (نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ) میں بیعت کی اجازت مرحمت فرمائی۔

 

٢٥۔خصوصیات :

 

اللہ رب العزت نے آپ کو چار اہم خصوصیات سے نوازا تھا ،

 

(١) ذوق مطالعہ:  دارالافتاء اور کتب خانہ میں زیادہ سے زیادہ وقت مطالعہ میں مصروف رہنا آپ کا خصوصی ذوق تھا رات کی تاریکی صبح کے اجالے میں بدل جاتی۔ صبح کا ناشتہ دوپہر کے کھانے اور دوپہر کا کھانا شام کے کھانے میں تبدیل ہوجاتا لیکن آپکے ذوق مطالعہ اور انہماک میں فرق نہ آتا۔ گھنٹوں گزر جاتے آپ کھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے مطالعہ میں مصروف رہتے لیکن تھکاوٹ اور بے چینی کے آثار نظر نہ آتے۔

 

(٢) شوق تبلیغ:  تدریسی امور کے ساتھ آپ کے تبلیغی اسفار اور پروگرام بھی مسلسل چلتے رہتے تھے لیکن اس سے آپ کی تدریسی ذمہ داریاں متاثر نہ ہوتی تھیں۔

 

پروگراموں کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

 

 (١)قریبی علاقائی پروگرام ۔ جو اکثر ظہر یا عشاء کے بعد ہوتے تھے ان میں آپ کسی بھی دن کی دعوت قبول کرلیتے تھے اور شرکت فرماتے تھے اور پروگرام سے واپسی چاہے رات کے دو بجے ہو یا تین بجے ہو یا فجر کی اذان اور نماز کے وقت ہو آپ صبح کو ہر حال میں حسب معمول درسگاہ اوردارالحدیث میں نظر آتے تھے۔ تبلیغی پروگراموں کی وجہ سے آپ اپنے تمام اسباق صبح کے وقت میں پڑھاتے تھے اور بارہ بجے تک تمام اسباق سے فارغ ہو جاتے تھے۔

 

 (٢)علاقائی پروگرام ۔ جو دو دن پر مشتمل ہوتے۔ جمعرات اور جمعہ کو تشکیل دیے جاتے۔

 

 (٣)دوردراز کے طویل پروگرام، جو ہفتوں کی ترتیب پر مرتب کئے جاتے وہ مدرسہ کے سہ ماہی، ششماہی، سالانہ امتحانات اور عید الفطر و عید الاضحی کی تعطیلات کے دنوں میں تشکیل پاتے تھے۔

 

(۳)ایثار و قربانی:آپ نے عمر بھر قربانی اور ایثار والا معاملہ اپنایا۔ بھائیوں کیلئے، بہنوں کیلئے، رشتہ داروں کیلئے، پورے خاندان کیلئے، دوستوں کیلئے، ساتھیوں کیلئے، مدرسین وملازمین کیلئے ادارہ اور جماعت کیلئے۔ دوسروں کو آگے بڑھانا، دوسروں کو خوشیاں دینا، دوسروں کے حقوق ادا کرنا، چھوٹوں کو بڑا بنانا اور بڑوں کو عزت واحترام سے نوازنا آپ کی خصوصی شان تھی۔

 

(٤) جامع الصفات: آپ تدریس، تبلیغ ، تصنیف، تصوف، سیاست اسلامیہ پانچوں شعبوں کے جامع تھے اور عمر بھر ان شعبوں میں مصروف رہے۔ اور محنت و خدمت کا حق ادا کردیا۔

 

٢٦۔عروج کے اسباب:

 

 آپ کے عروج، بلندی، سرفرازی و سربلندی اور دنیا پر چھا جانے کے چار اہم اسباب تھے۔

 

(١۔ سب سے بڑا اور اہم سبب تو مرشد کامل شیخ الاسلام حضرت درخواستی کی دعائیں، وفائیں، سرپرستی اور خلافت بالعمامہ سے متصف کرنا تھا۔

 

(٢۔ چالیس سال تک حدیث و تفسیر کی خدمت ۔

 

(٣۔ جمعیت علماء اسلام کی مسلسل بارہ سال تک سرپرستی۔

 

(٤۔ مجلس علماء اہلسنت والجماعت کی مسلسل بیس سال تک امارت و خدمت۔

 

٢٧۔جامعہ مخزن العلوم:

 

  جامعہ مخزن العلوم خانپور میں بحیثیت مدرس آپ کے بیس سال اور بحیثیت شیخ الحدیث، شیخ التفسیر، ناظم تعلیمات، رئیس دارالافتاء پندرہ سال جامعہ کی تاریخ میں ایک روشن اور نمایاں مقام رکھتے ہیں اور اسے جامعہ کے بہترین علمی دور میں شمار کیا جاتا ہے۔

 

٢٨۔دارالعلوم اسلامی مشن :

 

 دارالعلوم اسلامی مشن بہاولپور میں بحیثیت شیخ الحدیث، شیخ التفسیر ، رئیس دارالافتائ، مہتمم، آپ کے دو سال شہر بہاولپور کیلئے ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں جب بہاولپور کی فضائیں علم و معرفت کے نور سے منور ہوگئیںتھیں اور ہر طرف علمی اور روحانی رونقیں لگیں تھیں اور محفلیں سجیں تھیں بہاولپور کے روشن ضمیر غیور مسلمان آج بھی ان سہانے لمحوں میں کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔

 

٢٩۔جامعہ عبداللہ بن مسعود :

 

 آپ نے بحیثیت بانی:

 

اولاً: جامعہ عبداللہ بن مسعود خانپور کی تعمیری بنیاد رکھی۔

 

ثانیاً :جامعہ کی تعلیمی بنیاد رکھی۔ یعنی مکمل درسِ نظامی، دورۂ حدیث، دورۂ تفسیر، تخصص فی الافتاء کی بنیاد رکھی۔

 

ثالثاً:جامعہ میں تبلیغی بنیاد رکھی یعنی جامعہ کے سالانہ سہ روزہ عظیم الشان اجتماع کی بنیاد رکھی۔ رابعاً: جامعہ کیلئے توسیعی بنیاد رکھی یعنی جامعہ کی جدید اور وسیع تعمیر کیلئے اڑھائی ایکڑ اراضی خریدی اور یہ تمام امور قیامت تک آپ کیلئے صدقہ جاریہ بنے رہیں گے۔ انشاء اللہ العزیز۔ اور بحیثیت شیخ الحدیث، شیخ التفسیر، مہتمم آپ نے اٹھارہ سال تک تادم زیست جامعہ کیلئے ناقابل فراموش عظیم الشان خدمات سرانجام دیں۔ اور جامعہ کے نام اور کام کو چار دانگ عالم میں زندہ و جاوید اور روشن کردیا۔

 

٣٠۔وفات:

 

 آپ کی وفات١٠ شعبان المعظم بروز جمعة المبارک 1427ھ مطابق 24اگست2007ء شام 7بجے ہوئی جب آسمان کا سورج غروب ہورہا تھا تو زمین کا یہ سورج بھی 60سال تک اپنے علم و عرفان کی بہاریں دکھا کر غروب ہو گیا۔

 

          آپ کی وفات پر زمین و آسمان، جن و انس ، فرش و عرش بھی ر وئے۔ آپ کی عمر بھر کی خودداری، استغناء اور بے نیازی کے صدقے رب رحمن نے آپ کو وفات کے وقت بھی کسی کا محتاج اور احسان مند نہ کیا اور موت الفجأة نعمة کے مصداق اچانک موت سے ہمکنار کرکے اپنے ہاں بلا لیا۔

 

٣١۔نماز جنازہ:

 

 آپ کا نماز جنازہ نارمل اسکول خانپور کے وسیع و عریض میدان میں ادا کیا گیا جس میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ ہزاروں کی تعداد میں علمائ، طلبائ، مشائخ اور پیرانِ طریقت شریک ہوئے۔

 

          آپ کے جنازہ کے موقع پر اولاً شدید گرمی رہی پھر جیسے ہی جنازہ پنڈال میں لایا گیا تو ایک دم ٹھنڈی ہوا اور بادلوں نے پورے میدان کو گھیر لیا اور رحمت و سکینت کی گھٹا چھا گئی اور ہوا کا رخ شرقاً و غرباً یا شمالاً وجنوباً نہ تھا بلکہ ہوا کا رُخ عرشاً و فرشاً تھا یعنی ہوا کا رُخ آسمان سے زمین کی طرف اور سر سے پاؤں کی طرف تھا۔سبحان اللہ۔

 

          نماز جنازہ وصیت کے مطابق اس عاجزنے (یعنی شیخ الحدیث حضرت درخواستی کے بڑے صاحبزادہ و جانشین شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا حماد اللہ صاحب درخواستی مدظلہ [از ادارہ]) پڑھایا ۔ نماز جنازہ 11شعبان المعظم بروز ہفتہ صبح 10بجے پڑھا گیا ۔

 

٣٢۔مدفن:

 

آپ کا مدفن دین پور شریف کا قبرستان احاطہ خاص ہے جسے حضرت لاہوری نے جنت کا ٹکڑا کہا۔بظاہر جگہ کے کم ہونے کی وجہ سے موجودہ مقام پر آپ کی قبر نہ بن سکتی تھی لیکن پھر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم متوجہ ہواہمسایوں نے جگہ دے دی، قبر فراخ اور کشادہ ہوگئی اور علم و عمل کا یہ دُرِّ یکتا اس میں سما گیا۔

 

٣٣۔جانشین:

 

(تحریر۔حافظ محمد نعمان درخواستی(

 

 شیخ الحدیث حضرت درخواستی کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن آپ کے شاگردوں اور پیاروں میں آپ کی زندگی کا اصل سرمایہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک آپ کے بڑے صاحبزادے اور جانشین اور آپ کے علوم کے وارث اور امین شیخ الحدیث والتفسیر خطیب اسلام پیر طریقت حضرت مولانا حماد اللہ صاحب درخواستی دامت برکاتہم العالیہ ہیں جو زندگی کی ہر ہر ادامیں … چال ڈھال… شکل و صورت…تکلم و گفتگو … درسِ حدیث… درسِ تفسیر… بیان و خطابت، میں آپ کی ہو بہو تصویر کاپی و عکس جمیل ہیں اور بالیقین ہیں، جن کی علمی و روحانی تربیت و نگرانی آپ نے خود فرمائی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے جانشین اور حدیث وتفسیر کے مسند نشین کو تیار کیا اور اٹھارہ سال تک اپنے زیر سایہ و زیر تربیت، حدیث، تفسیر اور فقہ کے اسباق کی تدریس کراتے رہے اور آپ نے بھی جانشینی و نیابت کا حق ادا کردیاا ور دنیا نے بالاتفاق آپ کو شیخ الحدیث حضرت درخواستی کا صحیح جانشین تسلیم کرلیا۔