Loader Loading...
EAD Logo Taking too long?
Reload Reload document
| Open Open in new tab

Download

 

١۔ولادت:

آپ کی ولادت 9محرم الحرام١٣١٢ھ بروزجمعة  المبارک  بمطابق 1891ء کو بستی درخواست میں ہوئی۔اسی نسبت سے آپ درخواستی کہلائے اور بستی درخواست کو عالمگیر شہرت و مرکزیت نصیب ہوئی۔ 

 

٢۔نام:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان  اَحَبّ الاسماء اِلی اللّٰہ عبداللّٰہ و عبدالرحمٰن کے تحت آپ کانام عبداللہ رکھا گیا۔

 

٣۔والد ماجد:

آپ کے والد ماجد درویش صفت انسان مردِ  باخدا۔ سینکڑوں حفاظ کے استاذ۔علاقہ بھر کے منظور نظر۔ میاںجی حافظ محمود الدین صاحب رحمة اللہ علیہ  تھے جو اپنے شیخ مرشد کامل، قطب الاقطاب شہنشاہِ تصوف حضرت  خلیفہ غلام محمد صاحب رحمة اللہ علیہ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور ان کے قافلے کے میر سامان اور حُدی خواں تھے۔ اور اپنے شیخ کی وفات کے سال 1936ء میں ہی چھ مہینے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے شیخ سے جا ملے۔ اپنے شیخ کی جدائی کو زیادہ عرصہ برداشت نہ کرسکے۔

 

٤۔حفظ قرآن:

آپ نے ٩ سال کی عمر میں اپنے مالد ماجد میاں جی محمود الدین سے قرآن مجید حفظ مکمل کرلیا۔

 

٥۔ابتدائی تعلیم:

آپ نے ابتدائی تعلیم دین پور شریف، ڈیرہ نواب صاحب، مہند،میں اپنے دور کے جید اور ممتاز علماء کرام سے حاصل کی جن میں حضرت مولانا الشیخ احمد بخش، حضرت مولانا قادر بخش اورحضرت مولانا الٰہی بخش قابل ذکر ہیں۔

 

٦۔فقہ و موقوف علیہ:

آپ نے موقوف علیہ اور فقہ کے اسباق حضرت شیخ الہند کے مایہ ناز شاگرد حضرت مولانا عبدالغفور حاجی پوری سے پڑھے۔

 

٧۔حدیث:

آپ نے 1918ء میں دورۂ حدیث کے اسباق شیخ المحدثین حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کے شہرۂ آفاق شاگرد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفۂ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا غلام صدیق حاجی پوری سے پڑھے اور ان کے اندازِ حدیث سے فیض یاب ہوئے ۔

 

٨۔تفسیر :

آپ نے شیخ القرآن حضرت مولانا حسین علی (واں بھچراں) سے قرآن مجید کی تفسیر پڑھی اور ان کے اندازِ تفسیر سے فیض یاب ہوئے۔

 

٩۔تکمیل:

آپ نے حدیث اور تفسیر سے فراغت کے بعد ایک سال امام النحو۔ شمس النحاة۔ سیبویہ عصر۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحب پونٹوی کی خدمت میں گزارا اور ان کے علوم و فیوض سے بہرور ہوئے اور 1919ء میں آپ نے علوم دینیہ سے مکمل فراغت حاصل کرلی۔

 

١٠۔تدریس:

اولاً ۔ آپ بستی درخواست، دین پور شریف، ڈیرہ نواب صاحب، بستی مولویاں اور بستی مؤمن میں  پڑھاتے رہے اور دن رات ایک کرکے بڑی محنت اور لگن سے تقریباً 25سال تک تنِ تنہا درسِ نظامی اوردورۂ حدیث کی درجنوں کتب پڑھاتے رہے ۔

 

ثانیاً۔ ١٣٦٦ھ کو آپ نے خانپور میں جامعہ مخزن العلوم کی بنیاد رکھی اور تقریباً پچاس سال تک یہاں قرآن و حدیث کی محفل سجائے رکھی اور ابتدائً کافی عرصہ دورہ حدیث شریف و درس نظامی کے تمام اسباق تنہا پڑھاتے رہے۔ نماز فجر کے بعد اسباق شروع ہوتے تھے اور رات گئے تک جاری رہتے تھے۔

 

١١۔انداز تدریس:

آپ کی تدریس کا انداز عام فہم ا ور سادہ تھا۔ تقریر مختصر اور پُر اثر ہوتی تھی نفسِ کتاب کی تفہیم مقصود ہوتی تھی ۔ طویل مباحث سے اجتناب فرماتے تھے درسگاہ میں دورانِ سبق کسی کی طرف توجہ نہ فرماتے تھے۔ چاہے کوئی بڑے سے بڑا آدمی کیوں نہ آجائے۔ دوران سبق کسی کی غیبت، عیب جوئی، الزام تراشی اور کسی کی ذات کے بارے میں منفی تبصرہ نہیں فرماتے تھے۔ درسگاہ میں سیاسی گفتگو سے بھی پرہیز فرماتے تھے ۔ درسگاہ میں وعظ و نصیحت اور اکابر کے احوال و اقوال کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔

 

١٢۔درس حدیث:

آپ نے پون صدی تک حدیث کے اسباق پڑھائے اور دنیا بھر سے طالبان حدیث آپ کی طرف کھچے چلے آئے اور اپنی علمی پیاس کو بجھاتے رہے تقریباً پانچ ہزار  طلباء نے آپ سے  علم حدیث حاصل کیا اور دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں آپ کے حدیث کے شاگرد موجود نہ ہوں۔

 

١٣۔اندازحدیث:

آپ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے اور حدیث یار آپ کو تمام دنیا سے محبوب اور پیاری تھی اسی وجہ سے آپ جب درس حدیث میں مصروف ہوتے تودنیا ومافیھا سے بے خبر ہوجاتے اور ایک عجیب جذب اور وجد کی کیفیت آپ پر طاری ہوجاتی اور سننے اور دیکھنے والے بھی آپ کے ساتھ عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ڈوب جاتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے۔

 

وَمِنْ مَّذْھَبِیْ حُبُّ النَّبِِیّ وَکَلاَمِہ   وَلِلنَّاسِ فِیْمَا یَعْشِقُوْنَ مَذَاھِب

 

ماَہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم   الاَّ حدیث یار کہ تکرار می کنیم

 

١٤۔حافظ الحدیث:

آپ کو اللہ رب العزت نے بے مثال ذہانت و فطانت اور قوت حافظ سے نوازا تھا اور بچپن سے ہی حفظ حدیث کا ذوق بھی عطأ فرمایا تھا آپ نے خود بھی خانہ کعبہ حاضری کے موقع پر بیت اللہ سے لپٹ کر اور مُلتَزم سے چمٹ کر اللہ رب العزت سے حافظ ابن حجر عسقلانی جیسے قوتِ حافظہ عطأ کیئے جانے کی درخواست کی تھی اور وقت نے اس دعا کی قبولیت کو بھی واضح اور ظاہر کردیا اور یہ چیز سونے پہ سہاگہ، والی ہوگئی۔ پھر حفظِ حدیث ہی آپ کا ذوق و شوق اور منزل راہ قرار پائی اور آپ نے ہزاروں احادیث سنداً و متناً و معناً یاد کر ڈالیں اور شاید کہ بخاری شریف تو از اول تا آخر مکمل ہی حفظ کرڈالی! اسی وجہ سے جب مقدمہ مرزائیہ بہاولپور ١٩٣٢ء کے موقع پر آپ اپنے مرشد قطب الاقطاب حضرت خلیفہ غلام محمد اور اپنے والد ماجد میاں جی حافظ محمود الدین کے ساتھ بہاولپور تشریف لے گئے تو شیخ المحدثین حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری کو فرصت کے لمحات میںحفظاً بخاری شریف کی احادیث سنانے لگے اور محبت بھری دعائیں سمیٹنے لگے۔ تب علم حدیث کے بے تاج بادشاہ اور جوہری نے اس حدیث کے دیوانے اور ہیرے کو پہچان لیا اور نہایت ہی کشادہ دلی اور زندہ دلی سے نہ صرف اجازت حدیث عطأ فرمائی بلکہ حافظ الحدیث کے لقب سے  بھی سرفراز فرمایا! اور پھر برصغیر پاک وہند کیا دنیا بھر کے علماء اور مشائخ نے آپ کے ذوقِ حدیث، شوقِ حدیث، حبِّ حدیث، تکُّلمِ حدیث کو دیکھتے ہوئے آپ کو حافظ الحدیث تسلیم کرلیا اور پھر شیخ درخواستی اپنے دور کے تمام محدثین کے سردار اورسرکے تاج بن گئے۔

 

١٥۔درس تفسیر:

آپ نے پون صدی تک تفسیر کے اسباق بھی پڑھائے اور دنیا بھر سے علوم قرآن کے دیوانے آپ کی محفل و مجلس کا حصہ بنے اور اپنے آپ کو قرآنی علوم سے معمور، بھرپور، نور علیٰ نور، کیا تقریباً پچاس ہزار علماء اور مشائخ نے آپ سے تفسیر کے اسباق پڑھے اور دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں ہے جہاں آپ کے تفسیر کے شاگرد موجود نہ ہوں۔

 

١٦۔انداز تفسیر:

اولاً: آ پکے درسِ تفسیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور مولانا حسین علی  (واں بھچراں) کا انداز ہی نمایاں تھا لیکن صرف اسی انداز پر آپ کی طبیعت مطمئن نہ تھی اسی وجہ سے خانہ کعبہ میں بیت اللہ کے سائے میں رب رحمن کے حضور ایک نئے اندازِ تفسیر کے طلبگار بنے جو جامع و کامل ہونے کے ساتھ ساتھ علماء و طلباء کیلئے مفید و نافع بھی بنے اور مقبولیت و محبوبیت کی معراج کو چھو لے دعا مقبول و منظور ہوئی اور موجودہ اندازِ تفسیر آپ کو  عطاء کیا گیا جس نے عرب و عجم میں مقبولیت و محبوبیت کے جھنڈے گاڑ دیئے اور دنیا بھر کے علماء و مشائخ کو دیوانہ بنا دیا اور شعبان و رمضان میں دنیا بھر سے سینکڑوں  علماء و طلباء کی دورۂ تفسیر القرآن میں شرکت و حاضری نے شہر خان پور کو مدینة العلم کے نام سے مشہور کردیا۔ اسی لئے آپ اس انداز تفسیر کے موجد وبانی قرار پائینگے۔کیونکہ تفسیر کے اسباق تو ابتداء سے ہی علماء پڑھاتے چلے آرہے ہیں لیکن من حیث المجموع  یہ اندازِ تفسیر آپ کی ہی شان اور خصوصیت ہے جس کا اس دور میں دُور دُور تک کوئی معاصر و مقابل نظر نہیں آتا۔ آپ بغیر حواشی و اشارات کے سادہ قرآن مجید اپنے سامنے رکھتے تھے اور مسلسل پانچ سے سات گھنٹے تک درس تفسیر جاری رہتا تھا اور انتہائی پروقار، سادہ، سنجیدہ اور خوبصورت انداز میں قرآنی سورتوں اور رکوعات اور آیات میں یوں ربط واضح کرتے چلے جاتے جیسے ایک لڑی میں موتی پروئے جاتے ہیں اور قرآن مجید کے الفاظ کے معانی و مطالب اور مسائل و احکام و استنباط پر مشتمل فوائد و فرائد کا ایک سمندر ہوتا تھا جو بہتا ہی چلا جاتا تھا اور رکنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔

 

١٧۔دیوبند والے اِدھر آئینگے:

آپ نے اپنے شیخ قطب الاقطاب حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری سے دورۂ حدیث شریف کیلئے دارالعلوم دیوبند جانے کی درخواست کی تھی۔ تاکہ آپ حضرت شیخ الہند اور دیگر مشائخ دیوبند سے حدیث کی کتابیں پڑھ سکیں۔ لیکن شیخ نے اجازت نہیں دی کیونکہ اس وقت حالات خراب تھے تحریک کا زور تھا فتنوں کا شور تھا ہر طرف افراتفری کاعالم تھا اور کہا آپ اُدھر نہ جائیں دیوبند والے اِدھر آئینگے اور خدا کی شان ایسا ہی ہوا۔ اکابر بھی آئے اور اصاغر بھی آئے اور چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی،  شیخ المحدثین حضرت مولانا انورشاہ کشمیری، قائد انقلاب حضرت مولانا عبیداللہ سندھی جیسے جید اکابر علماء کرام یہاں تشریف لائے اور شیخ درخواستی نے ان کی خدمت بھی کی اور استفادہ بھی کیا اور پھر زمانہ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ شیخ درخواستی سے قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنے کیلئے دیوبند اور انڈیا کیا؟  برما، بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان، ایران، سعودی عرب، ملائشیا، انڈونیشیا، مصر، برطانیہ، افریقہ، امریکہ ، یورپ وغیرہ دنیا بھر سے لوگ جوق در جوق آئے اور اپنے شیخ دین پوری  کی لاج رکھنے والے شیخ درخواستی کے سامنے اپنے سروں کو جھکا دیا اور اور خود کو مٹا دیا۔

 

١٨۔خطابت:

آپ کی خطابت قرآن و حدیث پر مشتمل ہوتی تھی۔ توحید و رسالتﷺ، عظمت صحابہ، حب اہل بیت، کلام اللہ، بیت اللہ، اہل اللہ، روضہ رسول اللہ، اللہ کی دھرتی پہ اللہ کا نظام، پاکستان میں اسلام کا نفاذ وغیرہ جیسی دینی باتوں سے مزیّن و مرصّع آراستہ و پیراستہ ہوتی تھی۔ جوانی میں عشاء سے لیکر فجر کی اذانوں تک چھ چھ گھنٹے مسلسل آپ کا بیان ہوتا تھا اور بڑھاپے میں بھی اڑھائی تین گھنٹوں سے کم تو آپ کا بیان نہ ہوتا تھا بیان سادہ ہوتا تھا لیکن پُر تاثیر ہوتا تھا۔

 

١٩۔اندازِ خطابت:

آپ کی خطابت کا انداز عجیب و غریب ہوتا تھا۔ کبھی ہنسا  رہے ہیں، کبھی رُلا رہے ہیں، بچھڑے ہوؤں کو  رب سے ملا رہے ہیں، گرمی ہے تو بادل، ہوا اور بارش مانگ رہے ہیں، سردی ہے تو گرمی، دھوپ اور نرمی مانگ رہے ہیں اور جو مانگ رہے وہ رب رحمن عطا فرما رہے ہیں۔ سبحان اللہ۔ بس خطابت کیا ہوتی تھی ایک دینی محفل مجلس اور مذاکرہ ہوتا تھا جس پر رب کی رحمت برستی تھی اور دلوں کی کیفیت بدلتی تھی۔

 

٢٠۔سیاست و قیادت:

اولاً: آپ اپنے مرشد کامل حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری کے ہمراہ حضرت شیخ الہند کی تحریک آزادی تحریک ریشمی رومال  میں بھرپور مجاہدانہ کردار ادا کرتے رہے۔

 

ثانیاً: تقسیم ہند سے پہلے آپ جمعیت العلماء ہند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے شانہ بشانہ سیاسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اسی وجہ سے  آپ حضرت مدنی کے آخری دورہ ملتان و سندھ میں بھی مکمل سفر میںآپ کے ساتھ رہے تھے اور ملتان میں نماز جمعہ کی امامت کیلئے بھی حضرت مدنی نے آپ کو مصلّٰی امامت پر کھڑا کرکے اپنے بھرپور اعتماد کا اظہارکردیا تھا۔

 

ثالثاً: تقسیم ہند کے بعد جب ١٩٥٦ھ میں جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی گئی اور بالاتفاق شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کو امیر منتخب کیا گیا تو آپ حضرت لاہوری کے ساتھ مل کر جمعیت کے پلیٹ فارم سے نفاذِ اسلام کیلئے عملی جدوجہد میںمصروف ہوگئے اور ١٩٦٢ء کو حضرت لاہوری کی وفات کے بعد جب محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری کی تجویز پر تمام علماء کرام نے بالاتفاق آپ کو جمعیت علماء اسلام کا امیر منتخب کیا تو آپ نے 1962ء سے لیکر 1994ء تک مکمل32سال جمعیت کی امارت اور علماء کی امامت کے فرائض سرانجام دیئے اور تمام دینی مذہبی جماعتوں اور مدارس دینیہ کی سرپرستی فرمائی اور آپ نے تحریک ختم نبوت1953ء اور1974ء میں اور تحریک نظام مصطفی 1977ء میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا اور مسلسل محنت و مشقت، قید و بند کی صعوبتوں اور قاتلانہ حملوں سے آپ نہ گھبرائے اور اپنے اسلاف کی یاد تازہ کردی۔ آپ اپنی ذات میں ایک جماعت، ایک تحریک، ایک عہد اور ایک انقلاب تھے۔

 

٢١۔انداز سیاست و قیادت:

آپکی سیاست وقیادت کا انداز مروجہ سیاستدانوں اور لیڈروں جیسا نہ تھا بلکہ آپ کی سیاست مذہب کے تابع تھی اور قرآن و سنت کے مطابق تھی اور آپ کی سیا ست اعلاء کلمتہ اللہ اور نفاذ اسلام کے لیے تھی آپ جماعت کے ساتھیوں کو رفیق کار کادرجہ دیتے تھے اور عزت واحترام کا معاملہ فرماتے تھے کسی کوادنیٰ وگھٹیانہ سمجھے تھے اسی وجہ سے تمام ساتھی اور کارکن بھی آپ پر جان چھڑکتے تھے۔

 

٢٢۔ صورت وسیرت :

آپکی صورت میں بلند وبالاہزاروں میں نمایاں قد وقامت مضبوط گٹھاہواجسم …… باحیاخوبصورت بارعب مسکراتا ہواچہرہ   …… ۔سینے کو بھر دینے والی لمبی اورگھنی داڑھی  …… ہاتھوں میں عصاء  …… آنکھوں میں سرمہ  …… وجود میں خوشبو …… زباں پہ حدیث یار  …… چال باوقار اور تیز رفتار ……  طبیعت میں اخلاق وپیار تواضع وانکسار… گفتگومیں جلال وجمال … پر لطف و پر مزاح و پربہار … لباس میں کُرتہ تہبند اور اوپر چادر … سرپر عمامہ  … خوشی میں قہقہہ نہیں صرف تبسم اور مسکراہٹ  … غصے میں دائیں ہاتھ کی دوانگلیوں سبابہ اوروُسطیٰ کوبائیں ہاتھ کی پشت پر مارنا جیسی اوصاف موجود تھیں زندگی کی ہرہرادامیں پیارے بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ادائوں کی جھلک نظر آتی تھی ۔

 

آپکی سیرت میں … علم و عمل …  صبرو تحمل …  قناعت و توکل … ایثار و قربانی …تواضع و انکساری …جودوسخا …حلم وحیا …فقر واستغنا … مھرووفا … زہد و تقویٰ … جلال و جمال  … استقامت واستقلال … احسان و اخلاص … انعام و اکرام … جامعیت ونافعیت … رہنمائی و ہدایت …  رحمت ورأفت … نصرت و اعانت … غیرت و حمیت … عفوو درگذر … بے مثال حافظہ و ذہانت … اتباع قرآن و سنت  … حبِّ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم … حب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و مدینة الرسولصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم … حب اولیاء اللہ …حب مساجد و مدارس دینیہ  …  ذوق حفظ قرآن و حدیث … اعلاء کلمة اللہ  …  اصلاح بین الناس … اصحاب علم و عمل سے قرب و نزدیکی  … اربابِ  اختیار و اقتدار سے بعد و دُوری جیسی بے شمار اوصاف موجود تھیں۔

 

٢٣۔اجازت وخلافت:

آپ کے مرشد کامل قطب الاقطاب حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری  نے دورئہ حدیث سے فراغت کے موقع پر اپنی دستار مبارک اُتار کر آپ کے سر پررکھی اور آپ کے علوم شریعت اور علوم معرفت میں کامل اور مکمل ہونے کا واضح اظہار کردیا اور طالبان علوم ظاہری (یعنی حدیث و تفسیر فقہ و نحو کے طلبگار)اور طالبان علوم باطنی (تصوف وسلوک طریقت وحقیقت کے طلبگار)کی راہنمائی وخبرگیری کا فریضہ سونپ دیا اور آپ کو باقاعدہ خلافت جنید وقت حضرت مولانامیاں عبدالہادی دین پوری  سے حاصل ہوئی۔

٢٤۔ خصوصیات :

حضرت والدصاحب (شیخ الحدیث مولانا شفیق الرحمن درخواستی  ) فرماتے تھے کہ چارچیزیں ہمارے شیخ درخواستی کے تابع تھیں (١)نیند (٢)بھوک (٣) زمین (٤) بارش ۔ ہفتوں کی ترتیب پر دن رات ملک بھر میں اسفار کاسلسلہ جاری رہتاتھا۔ ساتھی مسلسل سفرکی وجہ سے دھوپ اور تھکاوٹ سے نڈھال اور مدہوش رہتے تھے لیکن آپ کونہ بھوک کی فکر ہوتی نہ تھکاوٹ کا غم ہوتا ۔ایک ہی درد، ایک ہی فکر ، ایک ہی غم ،ایک ہی تڑپ ہوتی کہ اللہ کی دھرتی پہ اللہ کے بندوں پہ اللہ کا نظام نافذہوجائے ۔اپنے لئے نہ نیند کی فکر ہے اور نہ کھانے کاخیال ہے لیکن ساتھیوں کے لئے آرام کی بھی فکر ہے اور کھانے کا بھی خیال ہے۔ لقمے بنابناکر ساتھیوں کے منہ میں دے رہے ہیں تاکہ میرے مشن میں شریک ہوجائیں ۔غم کے ساتھی بن جائیں ۔ درد کے بانٹنے والے بن جائیں، دین کے علمبرداربن جائیں ،آپ طیُّ الارض تھے۔

 

زمین آپ کے قدموں میں لپٹ لپٹ جاتی تھی اور سمٹ سمٹ جاتی تھی ۔ آپ چلتے تھے اور شرکاء سفردوڑتے تھے لیکن پھر بھی آپ تک پہنچ نہ پاتے تھے۔اللہ رب العزت نے زمین کو آپ کے تابع کر دیا تھا۔ آپ مہینوں کاسفر دنوں میں طے کر لیتے تھے اوردنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیتے تھے اللہ نے آپ کے لیے سفر کو آسان کر دیا تھا۔ اللہ نے بارش کو بھی آپ کے تابع کر دیا تھا جہاں دعامانگتے فوراً بارش شروع ہوجاتی تھی۔ اسی وجہ سے آپ بہت سے علاقوں میں بارش والے پیر مشہور ہوگئے تھے اسی لیے آپ فرماتے تھے کہ میں بارش والی حدیث بیان نہیں کرتا کیونکہ حدیث ابھی پوری نہیں ہوتی کہ بارش شروع ہوجاتی ہے اور لوگ بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں ۔

 

٢٥۔عروج کے اسباب :

حضرت والد صاحب (شیخ الحدیث حضرت مولانا شفیق الرحمن درخواستی) فرماتے تھے کہ ہمارے شیخ درخواستی کے عروج ،بلندی ،سرفرازی و سربلندی اور دنیا پر چھا جانے کے چار اہم اسباب تھے ۔

 

(١)سب سے بڑا اور اہم سبب تومرشد کامل حضرت خلیفہ غلام محمد دین  پوری کی دعائیں، وفائیں ، سرپرستی اور خلافت بالعمامتہ سے متصف کرنا تھا۔

 

(٢)ایک مرتبہ جب آپ عمرہ کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے تو شام کے ایک ابدال سے آپ کی ملاقات ہوئی اس نے علم وعمل کے اس دُریکتا کو پہچان لیا اور اصرار کے ساتھ چالیس دن کے لیے آپ کو ملک شام لے گیا اور اپنے فیوض و برکات سے آپ کومالا ما ل کردیا ۔

 

(٣) شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی جب اپنے آخری دورئہ ملتان وسندھ کے لیے پاکستان تشریف لائے تو حضرت درخواستی  کومکمل سفر میں اپنے ساتھ رکھااور اپنے فیوض وبرکات سے نواز اور جب حضرت مدنی واپس تشریف لے گئے تو ساتھیوں نے سفرکی روئید اد معلوم کی تو آپ نے کہا کہ سفر بہت اچھا اور کامیاب رہااور فرمایا کہ وہاں ایک مجاہد نوجوان عالم دین مولوی عبداللہ درخواستی تھا جوہردم میرے ساتھ رہا جوکچھ میرے پاس تھا اسے دے آیاہوں ۔

 

(٤)جمعیت علماء اسلام کی مسلسل ٣٢سال تک امارت وخدمت

 

٢٦۔عجائبات:

آپ کے کار ناموں میں چار کار نامے اہم ہیں (١)500مدارس دینیہ کا قیام(٢ )4000مدارس دینیہ کی سر پرستی (٣)٥٠٠٠ شاگردان حدیث۔ (٤)٥٠٠٠٠ شاگردان تفسیر ۔ تبھی تو عرب و عجم زیر قدم نظر آتا تھا۔ 

 

٢٧۔روضة الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سلام :

آپ کو روضة الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سلام آئے۔

 

٢٨۔آخری ملاقات:

آپ کی وفات سے ایک دن قبل ١٨ ربیع الاول بروز ہفتہ صبح سات بجے امام اہلسنت حضرت مولانا عبدالستار صاحب تونسوی دامت برکاتہم العالیہ کو ملاقات کیلئے جامعہ عبداللہ بن مسعود سے جامعہ مخزن العلوم لیکر گیا ملاقات کے دوران شیخ الاسلام حضرت درخواستی نہایت ہی ہشاش بشاش مطمئن اور پُر سکون تھے ملکی اور بین الاقوامی امور پر گفتگو فرماتے رہے! مدارس و مساجد اور دینی جماعتوں کے بارے میں حکومتی اور لادین لوگوں کے پروپیگنڈے اور مخالفت پر اپنی پریشانی کا اظہار بھی کرتے رہے اور آخر میں بہت سی دعاؤں اور نصیحتوں سے نوازااور عوام کو پہنچانے کیلئے کچھ پیغام بھی دیئے۔

 

٢٩۔ وفات۔

آپ کی وفات 19ربیع الاول 1415ھ بمطابق 28 اگست 1994ء بروز اتوار ہوئی ۔ صبح سات بجے جب آسمان کا سورج طلوع ہورہاتھا تو زمین کایہ سورج 103برس تک اپنے علم وعرفان کی کرنیں بکھیر کر غروب ہورہا تھا۔ آپ کی وفات پر زمین و آسمان جن وانس فرش و عرش بھی روئے ۔آپکی عمر بھر کی خودداری استغناء اور بے نیازی کے صدقے رب رحمن نے آپ کو وفات کے وقت بھی کسی کا محتاج اور احسان مندنہ کیا ۔اور موت الفجأة  نعمة  کے مصداق اچانک موت سے ہمکنار کرکے اپنے ہاں بلا لیا۔

 

٣٠۔ نماز جنازہ :

آپ کانماز جنازہ نارمل اسکول خانپور کے وسیع وعریض میدان میں ادا کیا گیاجس میں زندگی کے ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد نے شرکت کی اور پچاس ہزارسے زائد علماء وطلباء ومشائخ و پیرا ن طریقت شریک ہوئے آپ کے بڑے صاجزادے وجانشین حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی مہتمم جامعہ انوار القرآن کراچی جوکہ عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تھے ان کے بروقت جنازہ کے لیے نہ پہنچ پانے کے باعث آپ کا نمازہ جنازہ آپ کے چھوٹے صاحبزادے جامعہ مخزن العلوم خان پور کے مہتمم حضرت مولانا حافظ فضل الرحمن درخواستی نے پڑھایا۔  نمازجنازہ 20ربیع الاول بروز سوموار صبح 10بجے پڑھا گیا ۔

 

٣١۔زمین و آسمان کا رونا:

آپ کے جنازہ کے موقع پر آدھادن سخت گرمی رہی اور پھر آدھادن بارش ہوتی رہی گویاکہ آپ کی وفات پر آدھا دن زمین روتی رہی اور آدھا دن آسمان روتا رہا اسی لیے بعض اہل لغت نے لکھا ہے کہ زمین کارونا،اظہارالحر ، گرمی کا ظاہرکرنا ہے اور آسمان کا رونا ،نزول المطر، بارش کا اترنا ہے۔

 

٣٢۔مدفن:

آپ کامدفن دین پورشریف کا قبر ستان احاطہ خاص ہے جسے حضرت لاہوری  نے جنت کا ٹکڑا کہا۔ بظاہر جگہ کے کم ہونے کی وجہ سے موجودہ مقام پر آپکی قبرنہ بن سکتی تھی ۔ لیکن پھر اللہ رب العزت کا فضل وکرم متوجہ ہوا ۔ ہمسایوں نے جگہ دیدی قبرفراخ اور کشادہ ہوگئی اورعلم و عمل کا یہ دُرِیکتا اُس میں سماگیا۔

 

٣٣۔علمی جانشین :

شیخ الاسلام حضرت درخواستی  کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن آپ کے شاگردوں اور پیاروں میں آپ کی زندگی کا اصل سرمایہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک آپ کے نواسے اور علمی جانشین اور آپ کے علوم کے وارث اور امین شیخ المحدثین والمفسرین امام العلماء والصلحاء شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی نوراللہ مرقدہ بانی جامعہ عبداللہ بن مسعود خانپور تھے جو زندگی کی ہر ہر ادامیں ، چال ڈھال لباس تکلم وگفتگو، درس حدیث۔درس تفسیر۔بیان وخطابت میں آپ کی ہوبہو تصویر کاپی و عکس جمیل تھے اور بالیقین تھے جن کی علمی وروحانی تربیت و نگرانی آپ نے خود فرمائی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے علمی جانشین اور حدیث وتفسیر کے مسند نشین کوتیار کیا ۔خُودپس پردہ اسباق سنتے رہے اور دعائیں دیتے رہے ۔ختم بخاری شریف اور اجتماعات کے موقع پر اپنی دستا ر اور اپنا رومال آپ کو پہناتے رہے شیخ الحدیث اور شیخ التفسیرکے القاب سے بلاتے رہے ۔ اٹھارہ سال تک درس حدیث ودرس تفسیر میں اپنے ساتھ رکھا پھر مسند حدیث اور مسند تفسیر مکمل طور پر آپ کے حوالے کردی اور آپ نے بھی جانشینی و نیابت کاحق ادا کر دیااوردنیانے آپ کو بالا تفاق شیخ الاسلام حضرت درخواستی  کا صحیح علمی جانشین تسلیم کرلیا۔