١۔ ولادت:
آپ کی و لادت ٧ جمادی الثانی بروز سوموار ١٣٨٩ھ مطابق 1969ء کو ہوئی۔
٢۔ مقام ولادت:
مکی مسجد ، دین پور کالونی، خان پور
٣۔ نام:
آپ کے بڑے نانا جان شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب درخواستی نور اللہ مرقدہ نے اپنے نواسے کا نام حماد اللہ رکھا۔ اپنا لُعاب مبارک اپنے نواسے کے منہ میں ڈالا اور علم و عمل خیر و برکت کی ڈھیروں دعائیں ارشاد فرمائیں اور کہا کہ مجھے اپنے نواسے سے علم کی خوشبو آ رہی ہے۔ اِسی لعاب مبارک اور دعائوں کی تاثیر تھی کہ آپ اپنے والد محترم شیخ الحدیث حضرة درخواستی رحمہ اللہ اور اپنے بڑے نانا جان شیخ الاسلام حضرت درخواستی رحمہ اللہ کے علم و عرفان کے وارث’ امین اور ناشر بن گئے۔
٤۔ والد ماجد:
آپ کے والد ماجد شیخ الاسلام حضرت درخواستی کے علمی جانشین شیخ المحدثین والمفسرین امام العلماء والصلحاء شیخ الحدیث والتفسیرحضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی نور اللہ مرقدہ تھے جن کے ساتھ آپ نے اٹھارہ سال تک قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس و خدمت و اشاعت میں حصہ لیا اور جن کی سب سے زیادہ شفقت و محبت آپ کو حاصل رہی۔
٥۔ والدہ ماجدہ:
آپ کی والدہ ماجدہ رابعہ دوراں شیخ الاسلام حضرت درخواستی رحمہ اللہ کی نواسی اور مجاہد اسلام ماہنامہ مخزن العلوم رسالہ کے ایڈیٹر حضرت مولانا عبدالواحد صاحب شفیق رحمہ اللہ کی بڑی صاحبزادی تھیں جو بڑی ہی عبادت گذار تقویٰ و پرہیز گاری اور سخاوت والی خاتون تھیں اور جن کی سب سے زیادہ شفقت و محبت آپ کو حاصل رہی ہے۔
٦۔ دادا جان:
آپ کے دادا جان درویش عالم دین استاذ الحفاظ والعلماء ولی کامل حضرت مولانا عبدالرئوف صاحب درخواستی رحمہ اللہ تھے جن کا بے شمار و بے مثال پیار و محبت آپ کو نصیب ہوا جن کے دامن شفقت میں آپ نے قرآن مجید حفظ کیا اور جن کی دعائوں نے آپ کیلئے حصول علم اور خدمت و اشاعت قرآن و حدیث کی راہیں آسان کر دیں۔
٧۔ دادی صاحبہ:
آپ کی دادی صاحبہ شیخ الاسلام حضرت درخواستی رحمہ اللہ کی بڑی صاحبزادی تھیں۔ جو بڑی ہی عابدہ’ زاہدہ’ مجاہدہ اور صالحہ خاتون تھیں جن کے اخلاق و پیار محنت و خدمت کی آج بھی خاندان بھر میں مثال پیش کی جاتی ہے۔
٨۔ نانا جان:
آپ کے نانا جان مجاہد ملت مجاہد اسلام خطابت و قلم کے شہسوار علاقہ بھر کے محبوب و منظور نظر ماہنامہ مخزن العلوم رسالہ کے ایڈیٹر ‘ باکمال و بے مثال شخصیت حضرت مولانا عبدالواحد صاحب شفیق رحمہ اللہ تھے جن کی جرأت و بہادری کے قصے آج بھی زباں زدِ عام و خاص ہیں۔
٩۔ نانی صاحبہ:
آپ کی نانی صاحبہ شیخ الاسلام حضرت درخواستی رحمہ اللہ کی تیسری صاحبزادی تھیں۔ جو عبادت و ریاضت جرأت و شجاعت حق گوئی و صداقت میں اپنی مثال آپ تھیں۔
١٠۔ قرآن مجید:
آپ نے دس سال کی عمر میں بستی درخواست میں اپنے دادا جان حضرت مولانا عبدالرئوف صاحب درخواستی رحمہ اللہ اور میاں جی حافظ عبدالغفار صاحب مدظلہ سے قرآن مجید حفظ مکمل کر لیا۔
١١۔ ابتدائی تعلیم:
آپ نے ابتدائی تعلیم خان پور’ ظاہر پیر اور بہاولپور میں اپنے وقت کے جید اور ممتاز علماء کرام سے حاصل کی جن میں شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی رحمہ اللہ ، حضرت مولانا امیر محمد صاحب مدظلہ’ حضرت مولانا خلیل الرحمن صاحب ڈاہر مدظلہ’ حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب درخواستی مدظلہ’ شہید اسلام حضرت مولانا انیس الرحمن صاحب درخواستی رحمہ اللہ قابل ذکر ہیں۔
١٢۔ دورہ حدیث:
آپ نے دورہ حدیث شریف کے اسباق 1989ء میں جامعة العلوم الاسلامیة علامہ بنوری ٹائون کراچی میں شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی رحمتہ اللہ علیہ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب حضرت مولانا محمد ادریس صاحب حضرت مولانا مصباح اللہ شاہ صاحب سے پڑھے۔ ادارہ کے امتحانات اور وفاق المدارس کے امتحانات میں نمایاں اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔
١٣۔ میراث:
آپ نے میراث کے اسباق اپنے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا مفتی عبدالقادر صاحب آف کبیروالہ سے پڑھے۔
١٤۔ تکمیل:
آپ نے تکمیل کے اسباق اپنے والد محترم حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی رحمہ اللہ سے پڑھے۔
١٥۔ دورہ تفسیر:
آپ نے تفسیر کے اسباق شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب درخواستی رحمہ اللہ اور شیخ التفسیر حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی رحمہ اللہ سے پڑھے۔
١٦۔ تدریس:
جامعہ عبداللہ بن مسعود خان پور میں آپ 1990ء سے تاحال تقریباً چوبیس سال سے تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اولاً آپ نے اسلامی علوم و فنون کے اسباق پڑھائے پھر بہت جلد حدیث و تفسیر و فقہ کے اسباق بھی آپ کے حصہ میں آ گئے۔ اور تقریباً اٹھارہ سال سے آپ جامعہ عبداللہ بن مسعود خان پور میں بحیثیت ناظم تعلیمات’ نائب مہتمم’ استاذ الحدیث’ استاذ التفسیر’ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
١٧۔ انداز تدریس:
آپ ایک بہترین و شاندار مدرس ہیں فصیح اللسان ہیں’ کامل البیان ہیں’ اپنی بات طلباء کے قلب و جگر دل و دماغ تک پہنچانے کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ طلباء کے دلوں کی دھڑکن’ محبوب اور آئیڈیل استاذ ہیں۔
جامع المعقول والمنقول’ حاوی الوصول الفروع’ شیخ الحدیث والتفسیر’ صاحب البیان والتدریس کے خوبصورت القاب سے آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔ اسباق میں آپ اولاً عبارت کا سلیس معنی بیان کرتے ہیں۔ ثانیاً عبارت کا مطلب بیان کرتے ہیں۔ ثالثاً عبارت سے متعلق صرفی’ نحوی’ معنوی’ ادبی’ نکات و فوائد بیان کرتے ہیں جن سے طلباء کرام خوب محظوظ و لطف اندوز ہوتے ہیں درس گاہ میں وعظ و نصیحت اور اکابر کے احوال و اقوال کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔
١٨۔ درس حدیث:
آپ اٹھارہ سال سے حدیث کے اسباق پڑھا رہے ہیں اور ملک بھر سے طالبانِ حدیث آپ کی محفل و مجلس میں شریک ہو رہے ہیں۔
١٩۔ درس حدیث کی خصوصیات:
حدیث کا معنیٰ و مطلب و تشریح…مشکل الفاظ کی توضیح …حدیث باب اور ترجمة الباب میں مناسبت …ائمہ اربعہ کے مذاہب… ائمہ اربعہ کے دلائل … اختلافی مسائل پر سیر حاصل گفتگو … ترجیح راجح… اسناد…جرح و تعدیل… تطبیق و ترجیح …فوائد و نکات جیسے مباحث سے درس حدیث مزین و مرصع ہوتاہے ۔
٢٠۔ درس تفسیر:
آپ 18سالسے تفسیر کے اسباق بھی پڑھا رہے ہیں جس میں ملک بھر سے طالبانِ تفسیر آپ کے درس میں شامل ہو رہے ہیں۔
ا٢۔ درسِ تفسیر کی خصوصیات:
آپ کے درسِ تفسیر کی چندخصوصیات ملاحظہ فرمائیں۔
اقسام سُوَر و اسمائے سُوَر۔ موضوعات و خلاصہ ہائے سُوَر۔ شان نزول و فضائل سُوَر۔ ربط بین السور (پانچ طریق) ربط بین الاجزاء (پانچ طریق) ربط بین المنازل (پانچ طریق) ربط بین الرکوعات، ربط بین الآیات، ربط بین الجُمل،ربط بین الصیغ والالفاظ۔ شان نزول و فضائل آیات۔ تفسیر القرآن بالقرآن۔ تفسیر القرآن بالحدیث۔ تفسیر القرآن باقوال الصحابہ والتابعین۔ الفاظِ قرآنیہ کی صرفی، نحوی،معنوی، ادبی، تحقیقات ،مضامین و مسائل و احکامِ قرآنیہ کی تشریح۔ معارف و اسرار و نکاتِ قرآنیہ کی توضیح۔ مسلکِ حقہ کی تائید اور فِرق باطلہ کی تردید۔
٢٢۔ خطابت:
آپ ایک عظیم الشان خطیب اور مقرر ہیں آپ کی خطابت قرآن و حدیث پر مشتمل ہوتی ہے معارف و نکات قصص و واقعات سے مزین ہوتی ہے’ شہر خان پور’ ضلع رحیم یار خا ن اور ملک پاکستان کے عظیم الشان اجتماعات آپ کی خطابت کے گواہ ہیں۔ وقت اور موقع محل کی مناسبت سے دینی’ دنیوی’ تبلیغی’ اصلاحی’ سیاسی اور تاریخی گفتگو کرنے کی اللہ رب العزت نے آپ کو خصوصی صلاحیت عطاء فرمائی ہے جس سے آپ عوام و خواص کو نوازتے رہتے ہیں۔
٢٣۔ انداز خطابت:
آپ کی خطابت کے انداز سے شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب درخواستی رحمہ اللہ کی تلاوت حدیث و قرآن’ شیخ الحدیث حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی رحمہ اللہ کے علوم و عرفان اور خطیب العصر حضرت مولانا عبدالشکور صاحب دین پوری کے تسلسل بیان کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے اور آپ کے بیان سے ان تینوں حضرات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
٢٤۔ سیاست و قیادت:
آپ اپنے والد محترم شیخ الحدیث حضرت درخواستی رحمہ اللہ کے ساتھ جمعیت علماء اسلام اور مجلس علماء اہلسنت والجماعت کے پلیٹ فارم سے اٹھارہ سال تک بھرپور سیاسی و مذہبی جدوجہد میں مصروف رہے اور مجاہدانہ کردار ادا کرتے رہے اور 2007ء میں شیخ الحدیث حضرت درخواستی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد سے بھرپور انداز میں عالمی سطح پر دونوں جماعتوں کی سرپرستی و راہنمائی فرما رہے ہیں۔ آپ اپنی ذات میں ایک جماعت’ ایک تحریک’ ایک عہداور ایک انقلاب ہیں۔
٢٥۔ صورت و سیرت:
آپ کی صورت میں باحیائ’ با رعب’ پُرہیبت’ خوبصورت’ مسکراتا ہوا چہرہ’ معتدل درمیانہ قد و قامت’ چال باوقار تیز رفتار طبیعت میں اخلاق و پیار تواضع و انکسار’ گفتگو میں جلال و جمال پُر لطف و پُرمزاح و پُربہار جیسی اوصاف نظر آتی ہیں۔
اورآپ کی سیرت میں ۔ علم و عمل ۔صبرو تحمل ۔قناعت و توکل ۔ایثار و قربانی ۔تواضع و انکساری۔جودوسخا ۔حلم وحیا ۔فقر واستغنا ۔مھرووفا ۔زہد و تقویٰ ۔جلال و جمال ۔استقامت واستقلال ۔احسان و اخلاص ۔انعام و اکرام ۔جامعیت ونافعیت ۔رہنمائی و ہدایت ۔ رحمت ورأفت ۔ نصرت و اعانت ۔غیرت و حمیت ۔عفوو درگذر ۔بے مثال حافظہ و ذہانت۔ اتباع قرآن و سنت ۔حبِّ رسولﷺ واصحاب رسولﷺ ۔حب رسولﷺو آلِ رسولﷺ۔ حب رسولﷺو مدینة الرسولﷺ ۔حب اولیاء اللہ ۔حب مساجد و مدارس دینیہ ۔ذوق حفظ قرآن و حدیث۔ اعلاء کلمة اللہ ۔ اصلاح بین الناس ۔ اصحاب علم و عمل سے قرب و نزدیکی۔ اربابِ اختیار و اقتدار سے بعد و دُوری جیسی اوصاف موجود ہیں۔
٢٦۔ اجازت و خلافت:
آپ کو اپنے والد محترم شیخ الحدیث والتفسیر شیخ طریقت حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی رحمہ اللہ سے سلاسل اربعہ’ قادریہ’ نقشبندیہ’ چشتیہ’ سہروردیہ میں اجازت و خلافت حاصل ہے۔
٢٧۔ جانشین:
آپ اپنے والد محترم شیخ الحدیث والتفسیر شیخ طریقت حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی رحمہ اللہ کے علوم و عرفان کے وارث و امین اور علمی و روحانی جانشین ہیں۔
٢٨۔ جامع الصفات:
آپ ایک جامع الصفات شخصیت ہیں اور اللہ رب العزت آپ سے تدریس’ تبلیغ’ تصنیف’ تصوف اور سیاست اسلامیہ’ دین کے ہر شعبہ میں کام لے رہے ہیں۔
٢٩۔ جامعہ عبداللہ بن مسعود:
جامعہ عبداللہ بن مسعود خان پور میں بحیثیت مدرس آپ کے چوبیس سال اور بحیثیت ناظم تعلیمات’ نائب مہتمم’ استاذ الحدیث’ استاذ التفسیر’ آپ کے اٹھارہ سال جامعہ کی تاریخ میں ایک روشن اور نمایاں مقام رکھتے ہیں اور الحمد للہ محنت و خدمت کا یہ روشن سلسلہ پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ اور آپ جامعہ کے اساتذہ و طلباء کی خدمت اور نگرانی و راہنمائی کیلئے ہر وقت تیاراور مصروف کار ہیں۔
٣٠۔ جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات:
جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات خان پور آپ کی نگرانی و سرپرستی میں شعبہ حفظ و ناظرہ قرآن مجید اور شعبہ کتب میں متوسطہ سے لے کر دورہ حدیث شریف تک کامیابی سے اپنا سفر طے کر رہا ہے اور دینی مقاصد کو حاصل کررہاہے اور سینکڑوں طالبات قرآن و حدیث کی تعلیمات سے فیض یاب ہو رہی ہیں ۔
٣١۔ جمعیت علماء اسلام:
آپ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی راہنما اور سرپرست ہیں اور پورے ملک میں جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے دین اسلام کی سربلندی اور نفاذ اسلام کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
٣٢۔ مجلس علماء اہلسنت و الجماعت:
آپ علماء خطباء مبلغین اور واعظین کی عظیم الشان مشہور و معروف مذہبی جماعت مجلس علماء اہلسنت و الجماعت پاکستان کے نائب امیر مرکزیہ کی حیثیت سے ملک بھر میں دینی و مذہبی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور جماعت کی سرپرستی و راہنمائی فرما رہے ہیں۔
٣٣۔ مکتبہ شیخ درخواستی:
مکتبہ شیخ درخواستی شیخ الاسلام حافظ الحدیث والقرآن حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب درخواستی رحمہ اللہ شیخ المحدثین والمفسرین حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب درخواستی رحمہ اللہ شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا حماد اللہ صاحب درخواستی دامت برکاتہم العالیہ کی 150 سالہ دینی’ تعلیمی’ تدریسی’ تبلیغی’ فقہی’ تصنیفی’ سیاسی’ اصلاحی’ اخلاقی اور اشاعت قرآن و حدیث پر مشتمل خدمات کو منظر عام پر لانے کا امین ہے۔
مکتبہ شیخ درخواستی، عوام اور خواص میں دینی شعور و ذوق پیدا کرنے کا عَلم بردار ہے۔
مکتبہ شیخ درخواستی، اپنی خدمات و تصنیفات عالم اسلام تک پہنچانے کا خواہاں ہے۔
مکتبہ شیخ درخواستی ‘ شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا حماد اللہ صاحب درخواستی دامت برکاتہم العالیہ کی ادارت و سرپرستی میں دنیا بھر میں ترقی و عروج کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کیلئے